12 Rabi Ul Awal Youm e Wiladat Ya Wafat?
12
ربیع الاول یوم ولادت یا وفات
نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تاریخ ولا دت میں اقوال مختلف ہیں، لیکن زیادہ مشہور و اکثر و ماخوذ و معتبر یہی ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت 12 ربیع الاول کو ہوئی ہے۔
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”اس میں اقوال بہت مختلف ہیں: دو، آٹھ، دس، بارہ، سترہ، اٹھارہ، بائیس، سات قول ہیں، مگر اشہر و اکثر و ماخوذ و معتبر بارہویں ہے، مکۂ معظمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ مکان مولد اقدس کی زیارت کرتے ہیں۔کما فی المواھب والمدارج،جیسا کہ مواہب لدنیہ اور مدارج النبوۃ میں ہے۔
اور خاص اس مکان جنت نشان میں اسی تاریخ میلاد مقدس ہوتی ہے ۔
علامہ قسطلانی و فاضل زرقانی فرماتے ہیں:”المشھور أنہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ولد یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الأول و ھو قول محمد بن اسحاق امام المغازی وغیرہ“مشہور یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم بارہ ربیع الاول بروز پیر کو پیدا ہوئے، امام المغازی محمد بن اسحاق وغیرہ کا یہی قول ہے۔
شرح مواہب میں امام ابن کثیر سے ہے:”ھو المشھور عند الجمھور“جمہور کے نزدیک یہی مشہور ہے۔
اسی میں ہے:”ھو الذی علیہ العمل“یہی وہ ہے جس پر عمل ہے۔
شرح الہمزیہ میں ہے:”ھو المشھور و علیہ العمل“یہی مشہور اور اسی پر عمل ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد 26 ، ص411،412، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال با کمال کی تاریخ میں بھی اختلا ف ہے۔ مشہورقول یہی ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا وصال مبارک بارہ ربیع الاول کوہوا،لیکن تحقیق یہ ہے کہ حقیقۃً بحسب رؤیت مکہ معظمہ ربیع الاول شریف کی تیرہویں تھی، کیونکہ یہ تو بالاجماع ثابت ہے کہ وفات مبارکہ پیر کے دن ہوئی اور یہ بھی ثابت ہے کہ دس ذوالحجہ کو جمعۃ المبارک تھا، اب اگر حساب کیا جائے ، تو بارہ ربیع الاول کسی بھی اعتبار سے پیر کو نہیں بنتی، لیکن مدینہ شریف میں چونکہ رؤیت نہیں ہوئی تھی، لہٰذا ان کے حساب سے بارہویں تھی اور اسی کو راویوں نے بیان کیا اور یہی جمہور کے نزدیک مقبول ٹھہری ۔
سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین وملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”قول مشہور و معتمد جمہور دوازدہم (12)ربیع الاول شریف ہے،ابن سعد نے طبقات میں بطریق عمر بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما امیر المؤمنین مولی علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے روایت کی:” مات رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یوم الاثنین لاثنتی عشرۃ مضت ربیع الأول“یعنی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات شریف روز دو شنبہ ، بارھویں تاریخ ، ربیع الا ول شریف کوہو ئی۔۔۔
کامل ابن اثیر جزری میں ہے:”کان موتہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یوم الاثنین لثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من ربیع الأول“نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا وصال بارہ ربیع الاول پیر کے روز ہوا۔۔۔
اور تحقیق یہ ہے کہ حقیقۃً بحسب رؤیت مکہ معظمہ ربیع الاول شریف کی تیرھویں تھی، مدینہ طیبہ میں رؤیت نہ ہوئی، لہٰذا ان کے حساب سے بارھویں ٹھہری، وہی رواۃ نے اپنے حساب کی بنا پر روایت کی اور مشہور و مقبول جمہور ہوئی، یہ حاصل تحقیق امام بارزی و امام عماد الدین بن کثیر و امام بدر الدین بن جماعہ و غیرہم اکا بر محدثین و محققین ہے۔۔۔
تفصیل مقام و توضیح مرام یہ ہے کہ وفات اقدس ماہ ربیع الاول شریف روز دو شنبہ میں واقع ہوئی ، اس قدر ثابت و مستحکم و یقینی ہے، جس میں اصلا جائے نزاع نہیں۔۔۔ادھر یہ بلا شبہ ثابت کہ اس ربیع الاول سے پہلے جو ذی الحجہ تھا، اس کی پہلی روز پنجشنبہ تھی کہ حجۃ الوداع شریف بالاجماع روز جمعہ ہے۔۔۔ اور جب ذی الحجہ 10ھ کی 29 روز پنجشنبہ تھی تو ربیع الاول 11ھ کی 12 کسی طرح روز دو شنبہ نہیں آتی کہ اگر ذی الحجہ، محرم ، صفر تینوں مہینے 30 کے لیے جائیں ، تو غرہ ربیع الاول روز چار شنبہ ہوتا ہے اور پیر کی چھٹی اور تیرہویں، اور اگر تینوں 29 کے لیں ، تو غرہ روز یکشنبہ پڑتا ہے اور پیر کی دوسری اور نویں اور اگر ان میں کوئی سا ایک ناقص اور باقی دو کامل لیجیے ، تو پہلی سہ شنبہ کی ہوتی ہے اور پیر کی ساتویں چودہویں اور اگر ایک کامل دو ناقص مانیے، تو پہلی پیر کی ہوتی ہے، پھر پیر کی آٹھویں پندرھویں، غرض بارہویں کسی حساب سے نہیں آتی اور ان چار کے سوا پانچویں کوئی صورت نہیں۔
قول جمہور پر یہ اشکال پہلے امام سہیلی کے خیال میں آیا اور اسے لا حل سمجھ کر انہوں نے قول یکم اور امام ابن حجر عسقلانی نے دوم کی طرف عدول فرمایا۔۔۔ مگر امام بدر بن جماعہ نے قول جمہور کی یہ تاویل کی کہ اثنی عشر خلتسے بارہ دن گزرنا مراد ہے، نہ کہ صرف بارہ راتیں اور پُر ظاہر کہ بارہ دن گزرنا تیرہویں ہی تاریخ پر صادق آئے گا اور دو شنبہ کی تیرہویں بے تکلف صحیح ہے، جبکہ پہلے تینوں مہینے کامل ہوں، کما علمت اور امام بارزی و امام ابن کثیر نے یوں توجیہ فرمائی کہ مکہ معظمہ میں ہلال ذی الحجہ کی رؤیت شام چار شنبہ کو ہوئی، پنجشنبہ کا غرہ اور جمعہ کا عرفہ ، مگر مدینہ طیبہ میں رؤیت دوسرے دن ہوئی ، تو ذی الحجہ کی پہلی جمعہ کی ٹھہری اور تینوں مہینے ذی الحجہ، محرم، صفر تیس تیس کے ہوئے ، تو غرہ ربیع الاول پنجشنبہ اور بارہویں دو شنبہ آئی ۔ “(ملخصاً من فتاوی رضویہ، جلد26،ص415تا421 رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
(2) جب یہ ثابت ہو گیا کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت بارہ ربیع الاول ہی کو مشہور اورعرب و عجم کے مسلمانوں میں معمول بہ ہے ، تو اس دن خوشی کا اظہار کرنا اور میلاد کی محافل منعقد کرنا، نہ صرف جائز، بلکہ محبوب و مستحسن ہے،اس دن ایک قول کے مطابق نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال کا دن ہونے کی وجہ سے بھی ولادت کی خوشی میں کوئی فرق نہیں آئے گا کہ اسلام میں سوگ تومرنے والے کی بیوہ کے لیے چار ماہ دس دن اور اس کے علاوہ باقی اعزہ و اقرباء کے لیے صرف تین دن تک جائز ہے، اس سے زیادہ جائز نہیں، تو صحابۂ کرام اور اہل بیت اطہار نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال مبارک پر مغموم اور رنجیدہ تھے ، تو وہ سوگ کی وجہ سے تھے،اب اتنا عرصہ گزر جانے کی وجہ سے ہمارے لیے سوگ جائز نہیں،لیکن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی خوشی کے لیے کوئی دن اور مہینہ خاص نہیں اور اس کی کوئی تعیین و تحدید نہیں ہے، لہٰذا مؤمنین ہر سال ، ہر ماہ اور ہر دن آپ کی تشریف آوری والی نعمت کا شکر بجا لانے کے لیے موقع کی مناسبت سے خوشی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
سوگ تین دن کے لیے جائز ہے، اس سے زیادہ جائز نہیں، مگر جس کا خاوند فوت ہو جائے، اس عورت کے لیے چار ماہ دس دن کا سوگ ہے۔ چنانچہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، آپ فرماتی ہیں:”نھینا أن نحد أکثر من ثلٰث إلا لزوج“ہمیں تین دن سے زیادہ سوگ سے منع کیا گیا ہے، سوائے اس عورت کے ، جس کا خاوند فوت ہو جائے۔(بخاری شریف، جلد 1،ص 170، مطبوعہ کراچی)
اسی طرح حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، آپ فرماتی ہیں:”سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول لا یحل لامرأۃ تؤمن باللہ و الیوم الاٰخر أن تحد علی میت فوق ثلٰث الا علی زوج فانھا تحد علیہ أربعۃ أشھر و عشرا“میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو، اس کے لیے یہ حلال نہیں کہ میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے، مگر جس کا شوہر فوت ہو جائے، وہ اس پر چار ماہ اور دس دن سوگ کرے۔ (بخاری شریف جلد 1ص 171 ، مطبوعہ کراچی)
میلاد شریف حقیقت میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت پاک پر خوشی کا اظہار کرنااور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت پاک، حمل شریف، شیر خوارگی کے واقعات،نورمحمد ی صلی اللہ علیہ و سلم کی کرامات، نسب نامہ، پرورش کے دوران کے واقعات، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اوصاف و کمالات وغیرہا محاسن کے بیان کانام ہے، جو شرعاً جائز و مستحسن ہے اور دنیا و آخرت کی ہزارہا نعمتوں و برکتوں کے حصول کا سبب ہے، اس کا جواز بکثرت آیات و احادیث، حتی کہ خود نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اقوال و افعال، صحابہ کرام اور بزرگان دین سے ثابت ہے اگرچہ جواز کے لیے یہ دلیل بھی کافی ہے کہ اس کی ممانعت شریعت سے ثابت نہیں ہے اور جس کام سے اللہ تعالیٰ اور رسول پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا، وہ کسی کے منع کرنے سے منع نہیں ہوسکتا ۔ اس کے علاو ہ میلاد کے جواز و استحسان پر ددلائل ملاحظہ فرمائیں۔
ذکر ولادت و تذکرۂ رسول اکرم، نورمجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آیات مبارکہ سے دیکھیے۔
آیت نمبر 1:اللہ عزوجل نے فرمایا:﴿ واذ اخذ اﷲ میثاق النبیین لما اٰتیتکم من کتاب و حکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤ منن بہ و لتنصرنہ قال ءَ اَقۡررتم واخذتم علی ذٰلک اصری قالوا اقررنا قال فاشھدوا وانا معکم من الشاھدین﴾ترجمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو! جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا، جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں ، پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہار ی کتابوں کی تصدیق فرمائے ، تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا، فرمایا: کیا تم نے اقرار کیا؟ اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا؟ سب نے عرض کی: ہم نے اقرار کیا، فرمایا: تو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔(پارہ: 3،سورۃ: آل عمران: 3، آیت:81 )
اس آیت سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئیں:
(۱)اللہ تعالیٰ نے حضور پر نورشافع یوم النشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ذکر کے لیے سب کو جمع فرمایا۔
(۲)انبیاء کے اجتماع میں اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزماں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد کا تذکرہ فرمایا۔
(۳)انبیاء کے اجتماع میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت و شان ﴿مصدق لما معکم﴾کے ساتھ بیان فرمائی۔
(۴)نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت وحمایت و نصرت پر انبیاء علیہم السلام سے عہد لیا۔
(۵)اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کے اجتماع میں آمدمصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور بعثت و رسالت و عظمت مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بیان فرمائی اور انبیاء کرام علیہم السلام سامعین تھے۔
اب غو رکریں اس سے بڑھ کر میلاد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محفل اور کیا ہوگی ؟مسلمان بھی تو اپنے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت و محبت کے اظہار کے لیے یہی کرتے ہیں۔ اگر ان پر حرمت کافتوی ہے ، تو مذکورہ محفل کے بارے میں کیا حکم ہے؟
آیت نمبر2:اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:﴿ لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمؤمنین رؤوف رحیم﴾ترجمۂ کنز الایمان:بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول ، جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے، تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر کمالِ مہربان ۔(پارہ: 11، سورۃ التوبہ:9،آیت: 128)
اس آیت سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں:
(۱)﴿جاء کم﴾سے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد کا تذکرہ ہے۔
(۲)﴿من انفسکم﴾سے سرکا ر دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بشریت مبارکہ اور نسب مبارک کا ذکر ہے۔
(۳)﴿عزیز علیہ ماعنتم﴾ سے امت پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شفقت کا ذکر ہے۔
(۴)﴿حریص علیکم﴾اور ﴿بالمومنین رؤف رحیم﴾سے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت و شان کا تذکرہ ہے ۔
یہ آیت بھی شاندار طریقے سے میلاد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا طریقہ بتارہی ہے۔
کیا تلاوتِ قرآن کے وقت یہ آیت پڑھنا جائز اور چند لوگوں کے سامنے پڑھنا، ناجائز و حرام ہے؟ ہرگز نہیں! بلکہ خدا عقل دے ، تو غور کریں کہ عین نماز میں اگر امام صاحب یہ آیت بلند آواز میں تلاوت کریں ، تو حالتِ نماز میں میلادِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر ہوا یا نہیں ؟ اور جب جماعت موجود ہے ، تو اجتماع و محفل خود بخود پائی گئی ، لہٰذا اس کا انکار نہ کرے گا، مگر وہ جو نماز میں تلاوتِ قرآن کا ہی منکر ہو۔
آیت نمبر 3: اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:﴿قل بفضل اللہ و برحمتہ فبذٰلک فلیفرحوا ھو خیر مما یجمعون﴾ترجمۂ کنزالایمان:تم فرماؤ اللہ عزوجل ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں،وہ ان کے سب دھن ، دولت سے بہتر ہے۔(پارہ:11، سورۃ یونس، آیت:58)
اس آیت کریمہ میں اللہ عزوجل نے رحمت خداوندی پر خوشی منانے کا حکم دیا ہے اور کیا ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بڑھ کر بھی کوئی اللہ عزوجل کی رحمت یا نعمت ہے؟دیکھیے!مقدس قرآن میں صاف صاف اعلان ہے:﴿وماارسلنٰک الارحمۃ للعالمین﴾ترجمۂ کنز الایمان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا ، مگر رحمت سارے جہاں کے لیے۔(پارہ: 17،سورۃ الأنبیاء، آیت:107)
دوسری جگہ ارشادفرمایا:﴿لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیہم رسولا﴾ترجمۂ کنزالایمان: بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا۔(پارہ: 4،سورۃآل عمران، آیت:164)
پہلی آیت کریمہ میں سرکارصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رحمت ہونے کا ذکراور دوسری میں نعمت ہونے کا ذکر ہے۔
اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں اظہار نعمت کا حکم ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں ہے:﴿ وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ﴾ترجمۂ کنز الایمان: اور اپنے رب کی نعمت کاخوب چرچا کرو۔(پارہ: 30،سورۃ الضحیٰ ،آیت:12)
سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نعمت ہونا اظہر من الشمس ہے۔ تفسیر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اسی آیت کے تحت اسی جگہ یوں ہے:”أی بالنبوۃ والاسلام“یعنی نبوت اوراسلام کی نعمت پر(خوب چرچا کرو)۔(تفسیر ابن عباس)
خود آقا و مولا سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا صحابہ کرام علیہم الرضوان کی موجودگی میں اپنی ولادت، اپنے عالیشان نسب اور اپنے کمالات و بلند رتبے کا تذکرہ کرنا ثابت و مروی ہے۔چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ جلد 7ص 409مطبوعہ ملتان، مشکوٰۃ المصابیح ص 513مطبوعہ کراچی اور ترمذی شریف میں ہے، واللفظ للترمذی:”عن المطلب بن أبی وداعۃ قال جاء العباس الی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم فکأنہ سمع شیئا فقام النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم علی المنبر فقال: من أنا؟ فقالوا أنت رسول اللہ علیک السلام، قال: أنا محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب،ان اللہ خلق الخلق فجعلنی فی خیرھم ثم جعلھم فرقتین فجعلنی فی خیرھم فرقۃ ثم جعلھم قبائل فجعلنی فی خیرھم قبیلۃ ثم جعلھم بیوتا فجعلنی فی خیرھم بیتا وخیرھم نفسا“حضرت مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارگاہ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے ،تو شاید سرکارصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلم نے اپنے نسب کے بارے میں کوئی بات سنی تھی،چنانچہ سرکار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم منبر شریف پر جلوہ گھر ہوئے اور ارشاد فرمایا میں کون ہوں؟ عرض کی گئی، آپ اللہ عزوجل کے رسول ہیں، آپ پر سلام ہو،فرمایا: میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں، بے شک اللہ عز و جل نے مخلوق کو پیدا فرمایا اور ان میں اچھوں میں مجھے رکھا، پھر ان اچھوں کی دو جماعتیں کیں ، تو مجھے ان کے اچھے فرقہ میں سے بنایا، پھر ان اچھوں کے کئی قبیلے کیے ، تو مجھے اچھے قبیلہ میں بنایا، پھر ان اچھوں کے گھر بنائے ، تو مجھے اچھے گھر والوں میں اور اچھے نفس والوں میں بنایا۔(ترمذی شریف، جلد 2،ص201، مطبوعہ کراچی)
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت کے آخر میں یہ الفاظ زائد ہیں:”فأنا خیرکم بیتا و خیرکم نفسا“تو میں تم سب میں سے گھر کے اعتبار سے بھی اچھا ہوں اور تم سب سے ذات کے اعتبار سے بھی اچھا ہوں۔
اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہر پیر کے دن روزہ رکھ کر بھی اپنا میلاد منایا، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس روزے کے بارے میں پوچھا گیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس دن میری ولادت ہوئی ، لہٰذا پتا چلا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں ہر پیر کو روزہ رکھا جائے کہ یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
ابو داؤد شریف جلد1ص351 مطبوعہ لاہور،مشکوٰۃ المصابیح ص179 مطبوعہ کراچی اور مسلم شریف میں ہے، واللفظ للمسلم: حضرت سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:”سئل رسول اللہ عن صوم الاثنین فقال فیہ ولدت و فیہ أنزل علی“رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے پیر کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا (کیوں کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہر پیر کا روزہ رکھا کرتے تھے)، تو جواباً ارشاد فرمایا:اسی دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے۔(مسلم شریف، جلد1 ،ص368 ،مطبوعہ کراچی)
صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے بھی نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت کے تذکرے کے لیے جمع ہونا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر اللہ نے جو ہم پر احسان عظیم فرمایا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا، اور پھر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا اس پر خوش ہونا اور ان کو خوشخبری سنانا ثابت ہے۔
چنانچہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: ”ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خرج علی حلقۃ یعنی من أصحابہ فقال: ما أجلسکم؟ قالوا: جلسنا ندعو اللہ و نحمدہ علی ما ھدانا لدینہ و من علینا بک ، قال: آٰللہ ما أجلسکم إلا ذٰلک ؟ قالوا: آٰللہ ما أجلسنا إلا ذٰلک ، قال: أما أنی لم أستخلفکم تھمۃ لکم و إنما أتانی جبرئیل علیہ السلام فأخبرنی أن اللہ عزوجل یباھی بکم الملآئکۃ“بے شک نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صحابۂ کرام کی ایک محفل میں تشریف لائے اور فرمایا: کس چیز نے تمہیں یہاں بٹھایا ہے؟ انہوں نے عرض کی: ہم یہاں اس لیے بیٹھے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے جو دین اسلام کی دولت عطا فرمائی ہے اور آپ کو بھیج کر ہم پر جو احسان فرمایا ہے ، اس کا ذکر کریں، اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اور اللہ تعالیٰ کی اس پر حمد بجا لائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ کی قسم تم صرف اس لیے ہی بیٹھے ہو؟ عرض کی: اللہ کی قسم ہم صرف اسی لیے بیٹھے ہیں ،تو ارشاد فرمایا: میں نے تم سے اس لیے قسم نہیں لی کہ مجھے تم پر شک ہے ، بلکہ جبرئیل امین میرے پاس آئے اور مجھے خبر دی کہ بے شک تمہارے اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرشتوں پر فخر فرما رہا ہے۔(سنن نسائی، جلد 2،ص 310، مطبوعہ لاھور)
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں ابو لہب نے لونڈی کو آزاد کیا ، تو اس کو بھی اس کی وجہ سے فائدہ پہنچا، یہ مشہور واقعہ بخاری شریف میں اس طرح ہے:” جب ابو لہب مر گیا ، تو اس کے بعض گھر والوں نے اسے خواب میں برے حال میں دیکھا۔ پوچھا گیا کیا گزری؟ ابو لہب بولا، تم سے جدا ہو کر مجھے کوئی خیر نصیب نہ ہوئی، ہاں مجھے اس کلمے کی انگلی سے پانی ملتا ہے ، کیونکہ میں نے ثویبہ لونڈی کو آزاد کیا تھا۔(بخاری شریف، جلد1 ،ص153، مطبوعہ دارالفکر،بیروت)
اس روایت کے تحت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:” سب سے پہلے جس نے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دودھ پلایا، وہ ابو لہب کی باندی ثویبہ تھی، جس شب حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی، ثویبہ نے ابولہب کو بشارت پہنچائی کہ تمہارے بھائی حضرت عبد اللہ کے گھر فرزند پیدا ہوا ہے، ابو لہب نے اس مژدہ پر اس کو آزاد کر کے حکم دیا کہ جاؤ دودھ پلاؤ۔ حق تعالیٰ نے اس خوشی و مسرت پر جو ابو لہب نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت پر ظاہر کی ، اس کے عذاب میں کمی کر دی اور دو شنبہ کے دن اس پر سے عذاب اٹھا لیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔ اس حدیث میں میلاد شریف پڑھوانے والوں کے لیے حجت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت کی رات میں خوشی و مسرت کا اظہار کریں اور خوب مال و زر خرچ کریں۔ مطلب یہ کہ باوجودیکہ ابو لہب کافر تھا اور اس کی مذمت قرآن کریم میں نازل ہو چکی ہے، جب اس نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی میلاد کی خوشی کی اور اس نے اپنی باندی کو دودھ پلانے کی خاطر آزاد کر دیا ، تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف سے حق تعالیٰ نے اسے اس کا بدلہ عنایت فرمایا ۔ “ (مدارج النبوۃ، جلد دوم، ص 33,34، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز)
بلکہ جامع ترمذی جو صحاح ستہ میں سے مشہور کتاب ہے، اس کے مؤلف امام ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خاص میلاد کے حوالے سے ایک باب باندھا، جس کا نام ہی درج ذیل رکھا:”باب ماجاء فی میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم“،یعنی یہ باب ان احادیث کے بارے میں ہے جو میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں آئی ہیں۔ (جامع الترمذی، جلد5 ،ص356 ،مطبوعہ دارالفکر،بیروت)
مذکورہ بالا جزئیات سے ثابت ہوا کہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا رحمت و نعمت ہونا، اس پر خوشی منانا، سب قرآن واحادیث سے ثابت و مروی ہے، البتہ مروجہ انداز اُس دور میں نہ تھا، یعنی جس طرح لائٹنگ کرتے ہوئے، اسپیکر پر مخصوص بارہ تاریخ کو میلاد کرنا، لیکن اس دور میں کسی چیز کا نہ ہونا، بدعت قبیحہ (بری بدعت)ہونے کو مستلزم نہیں، ورنہ بہت سی ایسی چیزیں جو سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں نہ تھیں، وہ سب کے نزدیک درست ہیں، جو میلاد پر اعتراض کرتے ہیں وہ بھی انہیں اچھا جانتے ہیں۔
وہ قرآن جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ، جس کا ماننا ایمان کی شرط ہے، اس پر سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دور میں نہ تو نقطے تھے، نہ اعراب، نہ ایک جگہ پر جمع، بلکہ متفرق بغیر نقطوں ،بغیر اعراب کے تھا، لیکن اس دور میں اس کی صورت ہر ایک کے سامنے ہے، تو کیا قرآن کا انداز ہمارے پاس بصورت بدعت ہے؟ ہرگز نہیں، اسی طرح احادیث کی کتابت، باقاعدہ راویوں پر جرح و قدح کرنا، ان کے بارے میں کتابیں لکھنا،مساجد پکی بنانا،ان میں منبر و مینارہونا، قرون اُولی میں کہاں تھا؟ تو یہ سب بھی بدعت ہیں یا نہیں؟
اگر بدعت کی حقیقت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کوئی میلاد پر اعتراض کرتا ہے ، تو مذکورہ اشیاء کا بھی انکارکردے اور پھر اسلام کے احکام پر عمل کرے ، تو پتا چل جائے گا۔
بدعت سے مراد ہر وہ نیاکام ، جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دور اقدس میں نہیں تھا، لیکن ہر بدعت قبیح نہیں، بلکہ بدعت کی دو قسمیں ہیں: ایک بدعت حسنہ اور دوسری بدعت سیئہ ۔ یعنی ہر بدعت بری نہیں ہوتی، بلکہ بعض اچھی بھی ہوتی ہیں، جیسا کہ بعض کا ذکر ہوا ، تو جب وہ سب بدعت ہونے کے باوجود جائز ہیں ، تو میلاد کیوں ناجائز ہوا؟حالانکہ میلاد بہت سے نیک و مستحب کاموں کا مجموعہ ہے،جب متفرق طور پر ان میں سے ہر کام جائز و مستحب و مستحسن ہے ، توان سب کا مجموعہ بھی جائز و مستحب و مستحسن ہی ہو گا، جیسا کہ ایک جگہ پر امام غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:”جب افراد حرام نہیں ہوں گے ، تو اس کا مجموعہ کیوں کر حرام ہوگا ۔ “
مزید فرماتے ہیں:”جب الگ الگ جائز کام جمع ہوجائیں ، تو ان کامجموعہ بھی جائز ہوتا ہے اور جب اس کے ساتھ کوئی مباح کام ملایا جائے ، تو وہ حرام نہیں ہوجاتا ۔ “(احیاء العلوم اردو،جلد2،ص622،مطبوعہ پروگریسو بکس)
سیدنا شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حدیث پاک،”کل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار“کے تحت فرماتے ہیں: ”جو بدعت کہ اصول اور قواعد سنت کے موافق اور اس کے مطابق قیاس کی ہوئی ہے (یعنی شریعت و سنت سے نہیں ٹکراتی) اس کو بدعت حسنہ کہتے ہیں اور جو اس کے خلاف ہے وہ بدعت گمراہی کہلاتی ہے“۔(اشعۃ اللمعات،جلداول،ص125،مطبوعہ ملتان)
میلاد کا منانا اس وقت دنیا بھر کے مسلمانوں میں رائج و مروی ہے اور تمام عالم اسلام کے مسلمان اسے جائز و مستحسن و اچھا سمجھتے ہیں اور مشکوۃ شریف کی ایک حدیث پا ک میں مروی ہے:”عن ابن مسعود ما رأہ المؤمنون حسنا فھو عند اللہ حسن و فی حدیث مرفوع ولا تجتمع أمتی علی الضلالۃ“حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس کا م کو مسلمان اچھاجانیں ، وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے او رحدیث مرفوع میں ہے کہ میری امت گمراہی پرمتفق نہ ہوگی۔( مشکوۃ شریف ، ص 33، مطبوعہ کراچی)
اس حدیث پاک سے بھی معلوم ہوتاہے کہ مسلمان جس کو ثوا ب کا کام جانیں، وہ عندا للہ بھی کار ثواب ہے۔نیز حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تراویح کی باقاعدہ جماعت مقرر فرما کر فرمایا: ”نعمت البدعۃ ھذہ“یہ تو بہت ہی اچھی بدعت ہے۔ ( مشکوۃ شریف، ص115، مطبوعہ کراچی)
فقہاء و صوفیہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ عید میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے موقع پر ماتم اور غم کا تذکرہ کرنا بھی مناسب نہیں، بلکہ اس میں خوشی ہی کا اظہار ہونا چاہیے، چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”مجلس ملائک مآنس میلاد اقدس توعظیم شادی وخوشی وعید اکبر کی مجلس ہیں، اذکارغم وماتم اس کے مناسب نہیں، فقیر اس میں ذکر وفات والابھی جیسا کہ بعض عوام میں رائج ہے، پسند نہیں کرتا، حالانکہ حضور کی حیات بھی ہمارے لیے خیر اور حضور کی وفات بھی ہمارے لیے خیر، صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم۔ اس تحریر کے بعد علامہ محدث سیدی محمد طاہر فتنی قدس سرہ الشریف کی تصریح نظرفقیر سے گزری، انہوں نے بھی اس رائے فقیر کی موافقت فرمائی،والحمد ﷲ رب العٰلمین۔
آخرکتاب مستطاب مجمع بحارالانوار میں فرماتے ہیں:” شھرالسرور والبھجۃ مظھر منبع الأنوار و الرحمۃ شھرربیع الأول، فإنہ شھر أمرنا باظھار الحبور فیہ کل عام، فلا نکدرہ باسم الوفاۃ، فانہ یشبہ تجدید الماتم وقد نصوا علی کراھیتہ کل عام فی سیدنا الحسین مع أنہ لیس لہ أصل فی أمھات البلاد الاسلامیۃ وقد تحاشوا عن اسمہ فی أعراس الأولیاء فکیف فی سیّد الأصفیاء صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم“یعنی ماہ مبارک ربیع الاول خوشی وشادمانی کامہینہ ہے اورسرچشمہ انواررحمت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کازمانہ ظہورہے، ہمیں حکم ہے کہ ہرسال اس میں خوشی کریں، تو اسے وفات کے نام سے مکدرنہ کریں گے کہ یہ تجدید ماتم کے مشابہ ہے، اور بیشک علماء نے تصریح کی کہ ہرسال جوسیدنا امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کاماتم کیاجاتاہے، شرعاً مکروہ ہے، اور خاص اسلامی شہروں میں اس کی کچھ بنیادنہیں، اولیائے کرام کے عرسوں میں نام ماتم سے احتراز کرتے ہیں ، تو حضورپرنورسیدالاصفیاء صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معاملہ میں اسے کیونکر پسند کرسکتے ہیں۔ فالحمدللہ علی ما ألھم وﷲ سبحٰنہ وتعالی أعلم۔(فتاوی رضویہ، جلد 24،ص 516، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
اس کی مزید تفصیل کے لیے امام ِاہل ِسنت مجدد دین ملت سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن کے فتاویٰ بنام فتاویٰ رضویہ تخریج شدہ جلد23 ص759پر موجود فتوے اور اسی طرح جاء الحق وغیرہ کُتب جو میلاد کے
موضوع پر لکھی گئی ہیں ، ان کا مطالعہ فرمائیں۔
______________________________________________
Thanks شکریہ
Mahil Razvi Markazi ConversionConversion EmoticonEmoticon